اتوار 19 مئی 2024 - اتوار, 11 ذوالقعدۃ‬ 1445 IMG
Karwan e Najia Logo
کالم

امن کا آشیانہ طوفان کی نظر

Jan-24 78 Views

تحریر : حضرت محمد ظفر منصور ؔ مدظلہ العالی
بانی و سرپرستِ اعلیٰ عالمی روحانی جماعت کاروانِ ناجیہ

رحمتِ عالم ﷺ کی تشریف آوری سے قبل عالمِ انسانیت پر ظلمت اور جہالت کا اندھیرا چھایا ہوا تھا، ہر طرف قتل و خونریزی، شر و فساد، انا، غرور و تکبر، نا انصافی اور ظلم و جبر کا بازار گرم تھا، جہالت اور بربریت کی راتیں طویل سے طویل تر ہوتی جارہی تھیں۔ بالآخر مظلوم اور لاچار انسان کی عرش ہلا دینے والی گریہ و زاری نے رحمتِ خداوندی کو جوش دلایا اور خالقِ کائنات نے مظلوم انسانوں کی تقدیر بدلنے کا فیصلہ فرما دیا۔ اس عظیم مقصد کیلئے ربِ کائنات نے اپنی صفات پر متصف اپنے محبوب اور برگزیدہ بندے کو رحمت اللعالمین بنا کر انسانیت کی نجات اور رہنمائی کیلئے مبعوث اور انسانیت پر عظیم احسان فرمایا۔  
    رحمتِ عالم ﷺ نے انسان کو مقصدِ حیات سے آگاہ کرنے اور معراجِ انسانیت تک پہنچانے میں بے شمار مصائب اور تکالیف برداشت کیں۔ آپ ﷺ کے مضبوط عزم، راسخ عقیدہ، اعلیٰ توکل اور انسانیت کے ساتھ بے پایاں محبت کی وجہ سے آپ ﷺ اپنے مقدس مشن میں کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔ وہ مقدس مشنِ انسانیت کو ایک عظیم آشیانہ  فراہم کرنا تھا جس میں صرف انسان نہیں بلکہ تمام خلقِ خدا کے حقوق کا تحفظ، ترقی اور نجات کا خاکہ اور ضمانت موجود ہو۔انسانیت کے عظیم رہنما اور غمخوار حضرت محمد مصطفیﷺ کو اللہ تعالیٰ نے ایسا حَسین، عظیم ،مکمل اور بے مثل آشیانہ عطا فرمایاجو اللہ تعالیٰ کا پسند یدہ اور ہر نقص سے پاک اور مبرا ہے جس میں ماضی ،حال ،اور مستقبل کی نجات اور تحفظ کا خاکہ موجود ہے آپﷺنے اپنی حیاتِ طیبہ میں اس مقدس اور حَسین آشیانے کا بخوبی تحفظ کیا، دشمنوں کے ہرقسم کے بیرونی اور اندرونی خطرات سے محفوظ رکھا۔وہ عظیم اور مقدس آشیانہ دارالامن، دارالسکون اور دارالنجات یعنی دینِ مبینِ اسلام ہے۔
    آپ ﷺ کے بعد بھی کچھ عرصہ تک آپ ﷺ کے جانثار اور تربیت یافتہ غلاموں نے اس آشیانے کی بخوبی حفاظت کی۔ رفتہ رفتہ اس مقدس آشیانے کے وارثین اور محافظین تبدیل ہوتے گئے، وارثین تبدیل ہوتے ہی آشیانے کے حسن و جمال میں فرق آنا شروع ہو گیا۔ 
    آشیانہ سیرتی حسن و جمال( عدل، انصاف، صدق، امن، تقویٰ، اخلاص اور پاکی) سے خالی ہو گیا۔مسلمانوں کی غفلت اورلاپرواہی کی وجہ سے اغیار آشیانے کے اندر مکروفریب سے داخل ہو گیا، کچھ خود لوٹ کراپنے آشیانے کی زینت بنا دیااور باقی غافل ، عیاش اور دنیا پرست نگہبانوں نے مال و زر کے عوض بیچ دیا۔
     امن و سلامتی کے آشیانے کے محافظوں نے بغاوت اور سرکشی اختیار کرنا شروع کردی اور اپنے حقیقی آشیانے کو چھوڑ کر مغربی تہذیب سے آراستہ آشیانے کے اندر امن و سکون کی تلاش میں سرگرم ہو گیا لیکن صد افسو س مسلمان کی اس جہالت اور نادانی پر کہ نہ صرف اپنے حقیقی آشیانے کا حفاظت چھوڑدیابلکہ اغیار کی مثنوی ،خودساختہ اور ناقص آشیانے سے ذلت و رسوائی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا۔
    ماضی کے فاتح عالم مسلمان اپنا رعب، دبدبہ اور اثرو تاثیر کھو بیٹھے اور غیروں کے رعب اور دبدبہ میں آ کر ان کے غلام بن گئے۔ آج مسلمانوں کے لاوارث آشیانے کو مغربی طوفان نے کھنڈر بنا دیا ہے ۔ابھی مسلمان کبھی شرق اور کبھی غرب کے دروازے پر دستک دیتا ہے دونوں طرف سے پناہ دینے کا رسمی وعدہ تو ہو جاتا ہے مگر بیچارہ مسلمان جب قریب پہنچتا ہے تواس پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ ے جاتے ہیں اور وجود کو نشتر سے مجروح کیا جاتا ہے۔

اب دینِ مبینِ اسلام کے آشیانے کی وہ خوبصورتی اور حسن جو تقریبا ساڑھے چودہ سو سال قبل تھا کھنڈر بن چکا ہے۔ وہ آشیانہ جو کل دارالامن، دارالسکون اور دارالنجات تھا اب لوگ اس سے خوف زدہ ہیں اور اس میں رہنے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں۔آج کے نام نہاد مسلمان دشمنانِ اسلام کے اس گھٹیا فعل میں برابر کے شریک ہیں کیونکہ دینِ اسلام کی حقیقت تاریخ کے بیان سے نہیں بلکہ مسلمان کے عمل سے ثابت ہوتی ہے۔جب کہ ہمارے اسلام صرف زبانی دعوی ،تحریر و تقاریر ،صورتی تقوی ،جلسے جلوس اور رسمی اجتماعات تک رہ گئی۔

آج مسلمانوں پر ظلم و ستم کیوں ہو رہا ہے ؟

     جواب واضح ہے کہ ہم نے اپنے رہبرو پیشوا  ﷺ کی تعلیمات کو پسِ پشت ڈال دیا اور اپنے اسلاف کی عظیم قربانیوں اور سنہری تاریخ کو فراموش کر دیاہے، مسلمان نے بذاتِ خود اپنی تہذیب اور دین کو حقیربنادیا ،صراطِ مستقیم سے عملاً دور ہو کر بغاوت اور سر کشی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، بھائی بھائی اور بیٹا باپ کا جانی دشمن بن گیا ،ا سی وجہ سے خالق ِ کائنات ہم سے ناراض ہیںاور ہم اپنے معیوب عمل کی وجہ سے مختلف مصائب کا شکار ہیں۔ خواہشات اور حرص و لالچ کا پجاری مسلما ن اپنے ہی مسلمان بھائی کا دشمن بن گیا اور کل کی معزز قوم آج دہشت گرد کہلوانے لگی، وحدت کی نعمت عظمیٰ چھن چکی ہے، مسلمان کا بدن انتشار اور نفاق کے زہرسے بھر گیا ، عدل ظلم میں ،رحم قہر میں اور صداقت منافقت میں تبدیل ہو گئی۔ساڑھے چودہ سو سالہ سنہری ا سلامی تاریخ اغیار کی مسلسل سازش اور مسلمانوں کے معیوب عمل کی و جہ سے دھندلی نظر آنے لگی ہے۔
     آج کے رہنما،عالم ،فلسفی اور روحانی پیشوا اپنی تکمیلِ خواہشات کیلئے غیروں کے غلام بن کرہم پر مسلط ہو چکے ہیں۔اغیار کی چاپلوسی، ان سے امیدیں اور ہماری دورنگی پالیسی ہمیں دن بد ن تبا ہی و بربادی کے جال میں دھکیل رہی ہے۔آج مسلمانوں کی نجات مضبوط عزم، کامل ایمان ، اتفاق واتحاد اور وحدت میں پوشیدہ ہے جوہماری گمشدہ میراث ہے ۔ہمیں چاہیے کہ ہم نفاق ، سرکشی اور بغاوت ،رنگ و نسل اور قوم قبیلہ کے امتیازات سے بالاتر ہو کر متحد اور یک جان ہو جائیں ۔ دین ِ اسلام کے مقدس رشتہ کو ہر رشتہ پر مقدم رکھیں۔نفاق، سرکشی، بے حیائی اور بد عملی کو چھوڑ کرسیرتِ رسول ﷺ پر کار بند ہو جائیں۔ اگر ہم نے اسلامی تعلیمات کو نہ اپنایا تو دنیاکی کوئی طاقت ہمیں تباہی و بربادی سے نہیں بچا سکے گی۔اور اگرہم نے اپنے اسلاف کے ماضی کو حال میں بذریعہ اعمالِ صالح ثابت نہ کیا، دینِ اسلام کی آہ و فریاد کو نہ سنا اور اپنے مقدس آشیانے کی حفاظت نہ کی، صرف آسرے کی امید پر بیٹھے رہے تو پھر اغیار کا یہ طوفان ہماری نسلوں کو تنکوں کی طرح بہا کر لے جائے گا۔ 
    زندہ قومیں وحدت، اتفاق، مضبوط عزم اور کامل ایمان سے عظیم سے عظیم تر طوفانوں کا مقابلہ کرتی ہیں۔ اللہ کی مدد بندوں کی غیرت میں پوشیدہ ہے۔ خواہشات نفس اور حرص و ہوس کی قید سے نکل کر چند دن عیاشی کیلئے اپنی ابدی زندگی کو برباد کرنا عقلمندی نہیں بلکہ جہالت کی انتہاء ہے۔ دینِ مبینِ اسلام کی محافظت عملِ اسلام ہے جس میں ہمارا تحفظ، عزت اور بقاء پوشیدہ ہے۔
     تمام عالمِ اسلام کوفرقہ واریت اور انتشار کا راستہ چھوڑ کردینِ اسلام کے پلیٹ فارم پر متحد ہونا پڑے گا۔اللہ کے حکم کے مطابق  واعتصموابحبل اللہ جمیعاولا تفرقوا پر عمل کرنے میں ہماری دنیاوی اور اُخروی نجات پوشیدہ ہے ۔اگر خدانخواستہ ہم نے فرقہ واریت اور مسلک پرستی سے نجات حاصل نہ کی اور واحد دین اسلام کی طرف نہ لَوٹے تو مزید پستی اور بربادی سے ہمیں کوئی نہیں بچا سکے گا ۔ہمیں سیرت رسولﷺ کو اپناتے ہوئے صراط المستقیم کی طرف قدم بڑھانا ہوگا ۔اللہ ہمیں واحد دین اسلام اور تعلیماتِ نبویﷺ پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطافرمائے۔آمین