اتوار 19 مئی 2024 - اتوار, 11 ذوالقعدۃ‬ 1445 IMG
Karwan e Najia Logo
کالم

بارگاہِ الٰہی میں قبولیت کا پیمانہ

Jan-24 77 Views

تحریر: حضرت محمد ظفر منصورؔ مدظلہ العالیٰ
بانی و سر پرست ِ اعلیٰ عالمی روحانی جماعت کاروانِ ناجیہ

ہر مسلمان چاہے وہ کسی مسلک ، تنظیم یا جماعت سے منسلک ہو یا نہ ہو ، اپنے خالق و مالک اور ربِ کریم کے حضور پیش ہونے اور  اعمال کا حساب دینے پر یقین رکھتاہے ۔ یقین کے ساتھ ساتھ اپنے علم ،عقل ، طاقت اوربساط کے مطابق اپنے رب کو راضی کرنے کی کوشش بھی کرتاہے ۔لیکن عوام الناس سے اکثر سننے میں آیا ہے کہ خدا جانے کون سا عمل مقبول ہوگا۔یعنی اعمال کے مقبول یا مردود ہونے کا پیمانہ معلوم نہیں ہے ،تا کہ اعمال کی شاہراہ سے گذرتے ہوئے خلقِ خدااپنے کردارکی پہچان کرکے ربِ کائنات کی رحمتوںپر کامل یقین اور ایمان حاصل کر سکے۔
    جیساکہ حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ اعمال کا دارومدا ر نیتوں پر ہے ۔مگر نیت کامفہوم تب سمجھ میںآتا ہے اوراس کی اہمیت کا صحیح ادراک اُس وقت ہوتا ہے جب اخلاص کی روح اور حقیقت دل و دماغ میں اچھی طرح راسخ ہو جائے ۔ اور یاد رہے کہ کسی بھی چیز کی قدرو قیمت اس کی رنگت ، وزن ،حجم یامقدار کی نہیںبلکہ اس کے خالص پن کی ہوتی ہے۔لفظ اخلاص بظاہر بہت ہی معمولی اور چھوٹا مگر اس کی جامعیت اس قدر کہ وزن پہاڑ سے ،وسعت آسمان سے اور گہرائی سمندر وںسے کہیں زیادہ اور غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے۔
    اخلاص اس حقیقت کا نام ہے جوسچے جذبے کے ساتھ پاک نیت سے خروج کرکے انسانی  ا عضاء کو قناعت کے دائرے میں عملِ خیر کا پابند بنا دے۔ اگر نیت میں اخلاص موجود ہو تو زبان پُر تاثیر ،دعائیں اور اعمال بارگاہِ الہٰی میں مقبول ہو جاتے ہیں۔ اخلاص درحقیقت ایمان کا وہ نور ہے جو انسانی سیرت کے حسن اور شخصیت کیلئے معاشرے میںاعلیٰ تشخص کا باعث بنتا ہے۔ 
    اخلاص ہر عمل کی بنیا د اور اساس ہے۔ وہ عمل جو بظاہر نیک مگر اخلاص سے خالی ہو ،بے روح جسد کی مانند ہے اور بارگاہِ الہٰی  میںمقبولیت کا درجہ نہیں رکھتا۔ یعنی فرائض ، نوافل اور فلاحی کاموں میں اگر ذاتی اغراض ومقاصد ، دنیاوی نفع اورشہرت شامل ہو جائے تو اعمال ضائع اور بے اثرو تاثیر ہو جاتے ہیں۔ مذکورہ اشخاص کی دعائو ں کو مشکل اوقات میں بارگاہِ الہٰی کے اندر قبولیت کا شرف حاصل نہیں ہوتا۔جن لوگوں کا عمل اخلاص سے خالی ہو ، درحقیقت ان کی روح بیمار ہوتی ہے۔ سب کچھ کرنے کے باوجود  دامن خالی رہتا ہے۔ ایسے لوگ اپنے عمل سے بظاہر مطمئن مگراطمینانِ قلب اور حقیقی روحانی تسکین سے محروم رہتے ہیں ۔ 
    مذکورہ لوگوںکاایمان زوال پذیر ہوتا ہے اور ان کی نفسانی خواہشات بڑھنا شروع ہو جاتی ہیں ۔ خواہشاتِ نفس کی تکمیل میں حلال و حرام اور جائز و ناجائز کا فرق مٹ جاتا ہے۔ ایسی حالت میں معاشرہ مجموعی طور پر تفریق اور ناانصافی کی لپیٹ میںآجاتا ہے۔ حرص اور خواہشات کی آگ بجھانے کیلئے دوسروں کی جان ، مال اور عزت پر تجاوز روز مرہ کا معمول بن جاتا ہے۔ مذکورہ افعال جراثیم کی طرح ایک وجود سے دوسرے تک منتقل ہو جاتے ہیں یعنی دوسروں پر برتری حاصل کرنے کیلئے باہمی مقابلے کی فضا ء پیدا ہو جاتی ہے۔ نفسانفسی کا عالم انسانی ہمدردی، دوستی ،رحم اور ایثارو قربانی کے جذبے کو مجروح کر دیتا ہے اور ایک پُر امن معاشرہ جہنم کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ 
    حاکم اور امراء حضرات خدمتِ خلق کی آڑمیں محکوم اور غریب طبقے کا خون پینے سے باز نہیں آتے ۔یعنی دعویٰ اچھائی اورنیکی کا مگر اس میں ذاتی غرض و غایت شامل ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں غریب اور نادار طبقے کے حقوق شدید متاثر ہوتے ہیں اور مفلسی کی حالت میں غرباء اور مظلوم لوگوں کی آہ و فغاں عرشِ خداوندی کو ہلا کر رکھ دیتی ہے،جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ غضب ناک ہو جاتا ہے اور انسان پر آفتوں کو وہ سلسلہ ٹوٹ پڑتاہے جس کو برداشت کرنا انسان کے بس میں نہیں ہوتا۔ ایسی تلخ اور جان لیوا صورتِ حال کو ڈاکٹر اپنی طب، سائنسدان اپنی ایجاد،محقق اپنی تحقیق ،دانشمند اپنی فکر،سیاستدان اپنی سیاست اور علماء اپنے علمِ ظاہر سے ختم کرنے کی بہت کوشش کرتے ہیں مگر ان کی تمام تر کاوشوں کے باوجود معاشرے کی حالت سدھرنے کی بجائے بد سے بدتر ہو جاتی ہے۔ 
    من کے اندر کی کھوٹ اور پلیتی انسانی قلوب و اذہان کو مفلوج بنا دیتی ہے۔ سب کچھ ہونے کے باوجود کچھ نہ ہونے کا احساس انسان کو ہراساں کیے رکھتاہے۔ آزادی کے باوجود اذہان اسارت کے شکنجوں میں جکڑے رہتے ہیں ،روحی اذیت سے چھٹکارا نہیں ہوتا۔ بغیر جرم مجرم ہونے کا خوف ہر وقت مسلط رہتاہے۔ کم عقلی اور نادانی کا عنصر اتنا غالب اور بصیرت،دوراندیشی اورفراست اتنی مدھم پڑجاتی ہے کہ انسان اصلی نکتہ سمجھنے سے مطلق قاصر رہتا ہے۔
    وہ حسین اور زرین اوصاف جن کو اپنانے سے زندگی کے سارے باب روشن اور بند راستے کھل جاتے ہیں ، انسانی زندگی کے تمام پیچ و تاب کا اختتام ہو جاتا ہے ،جو فکر کے سارے اندیشوں کو دور کرکے انسان کو لاخوف اور بے نیاز بنا دیتے ہیں۔ وہ سنہری خزانے پاکی اور اخلاص کی صورت میں خداوندِبزرگ و برتر نے انسانی سرشت اور خمیر میں ودیعت فرمائے ہیں ، مگر انسان نے اندر کے سفر کی بجائے خود کو فراموش کر دیااور اخلاص جیسے عظیم گوہرِنایاب پر نجاستوں اور غلاظتوں کے انبار لگادئیے۔ پلیتی اور دورنگی کو شیوہ بنا کر اپنی اوردوسروںکی زندگی کو اجیرن کر رکھا ہے۔ 
    جس وقت انسانی اعمال و افکار اخلاص سے عاری اور خود غرضی کی زد میں آکر انسان کو تجاوز پر مجبور کر دیں اور انسان حیوانوں کی مثل غیر فطری اور غیر اخلاقی رنگ ڈھنگ اختیار کر لے ، ایسی تباہ کن صورتِ حال سے چھٹکارے کیلئے انسان کو چاہیے کہ مخلصین کی تلاش میں نکل جائے۔ وہ لوگ جو سراپائے اخلاص ہوں اور پاکی ،نظافت اورحسن و جمال سے ان کا ہر فعل رنگین اور منور ہو ، ایسے مخلصین کوڈھونڈ کر ان سے تربیت حاصل کرنے سے اخلاص اور پاکی کا وہ گوہر جو خزاں رسیدہ زمین پر بہار کا سماں پیدا کر دیتا ہے ،مخلصین کے پاک سینوں سے نکل کر ہر بشر کو اپنی نوری تاثیر سے منور کردے گا،اورجس وقت وجود کی دنیامیں اخلاص اور پاکی کی شمع روشن ہو جائے گی ، انسان اندر سے صاف ، خوشبودار اور حسن و جمال کا مرقع بن جائے گا۔
     اخلاص اور پاکی انسان کو اندر اور باہر سے دھو کر بے عیب اور بے نقص بنا دے گی ۔ اللہ تعالیٰ پاک ہے اور پاکی کو پسند فرماتا ہے ، اللہ کی جنت پاک ہے اور پاک لوگوں کا ٹھکاناہے ۔نجاست ، پلیتی اور دورنگی کے ساتھ ہم ہر گز اس کی رحمت اور بخشش کے سزاوار نہیں ٹھہر سکتے ۔ اخلاص سے مزین ظاہر و باطن ہی ہمارے لئے خوشیوں کا ضامن اور نجات کا سبب بن سکتا ہے ، بصورتِ دیگر اخلاص سے خالی عمل پر مطمئن رہنا اور خود کو انعامِ خداوندی کا حقدار سمجھنا نفس و شیطان کا وہ دھوکہ ہے جس کا انجام شرمندگی اور ہلاکت ہے۔