اتوار 19 مئی 2024 - اتوار, 11 ذوالقعدۃ‬ 1445 IMG
Karwan e Najia Logo
کالم

اتحادِامت کب اور کیسے ممکن ہے؟

Jan-24 119 Views

Karwan e Najiaتحریر:حضرت محمد ظفر منصورؔ مدظلہ العالی
بانی وسرپرستِ اعلیٰ عالمی روحانی جماعت کاروانِ ناجیہ

کرہّ ارض کے مکینوںمیں اختلافِ رائے اور نظریات کے تصادم نے ہر طرف بھگدڑ مچا رکھی ہے۔ ممالک کی جنگ، مذاہب کے ٹکرائو اور تہذیبوں کے اتار چڑھائو نے نسلوںکی تباہی میںکوئی کسر باقی نہیںچھوڑی۔ خودنمائی اور دوسروںکی تباہی کیلئے تخریبی سوچوں نے حالات کو اتنا بگاڑ دیا کہ انسانیت کی نجات کیلئے لاحاصل کوششوں کا کوئی نتیجہ نظر نہیںآتا۔ 
    ایک بے زاری،بے قراری اور مایوسی کی کیفیت باقی ہے۔ دین دھرم کے پرچار کا شور اتنا ہو گیا کہ درودیوار تھر تھراگئے، لیکن تاثیر سے معاشرہ خالی ہو گیا۔محبت نہیں ہاں نفرت ملنے کو عام ہے، دوستی غائب مگر دشمنی قدم قدم پر ،عدل مٹ گیا ،ظلم اور بے عدالتی چھاگئی،تاریکی نے ڈیرے ڈال دئیے اور روشنی چلی گئی۔چاروں طرف اسلام کے فلک شگاف نعرے ہیں مگر سلامتی اْٹھ گئی۔ تقریر اور تحریر میں اغیار کی مخالفت مگر کردار کی دنیا میںمکمل مشابہت۔سیرتِ رسولﷺکازبانی ،کلامی بیان مگر عملاً بغاوت اور سرکشی۔ ایسی وفادار امت کا مستقبل کیا ہو گا جو زبان سے عشق و وفامگر عمل سے جفاء کی انتہاء کر دے۔ 
    نااہل لیڈروں اور راہنمائوں کی اندھی تقلید نے ہمارے عقل پر پردے ڈال دئیے۔ اپنے آپ سے بے خبر اور دوسروںپر الزام تراشیاں ہمارے لئے روشن سویرا کب لائیں گی۔ذاتیات میں گھِرے راہبروں کے اندر نفرتوں کے وہ طوفان ہیں جنکی تاثیر اپنے ہی خون سے نفرت،دشمنی ،جنگ اور قتل و غارت کی صورت میں ظاہر ہو رہی ہے۔ یہ کس عدل کا تقاضا ہے کہ ذاتی فعل کی ذمہ داری غیروں پر ڈال دی جائے۔ ہر انسان کے پاس عقل موجود اور ہر وجود میں ضمیر کی عدالت قائم ہے۔ہمیں سمجھنا ہو گا کہ غیر مسلمین کی ہم سے دشمنی،ہمارے خلاف منافقانہ سوچ ،پراپیگنڈے ،دہشت گردی اور انتہاپسندی کے القاب لگانے کی وجہ اور بنیاد ہمارا اپنا نفاق ہے۔جس گھر کے افراد آپس میں متحد ہوں ،کسی کی ہمت اور جرات نہیں کہ اس گھر میں مداخلت کرسکے۔  
    میرے خیال میں اپنی بداعمالیوں ،ناکامیوں ،ذِلتوں اور پستیوں کا قصوروار خود کو ٹھہرانا اچھی بات ہے کیونکہ جب اپنے اندر عیوب موجود ہوں، دوسروںپر الزام تراشی کسی طرح سے بھی موافق نہیں آتی۔ غیر مسلمین ہمارے اوپر اگر تشدد ،ظلم ، تجاوز اور آگ کے گولے نہ برسائیں تو اور کیا کریں ؟ ہماری عقیدت اور جذبات سے نہ کھیلیں تو کس سے کھیلیں ؟ہمارے آقاو مولیٰﷺکے بارے میں نازیبا الفاظ اور گستاخانہ خاکے بنانے کی جرات نہ کریں تو اور کیا کریں ؟ مقدس اور لاریب قرآن کو نعوذبااللہ شروفساد کے قانون سے تعبیر نہ کریں تو کیا کریں َ؟دشمن کا تو کام ہی دشمنی ہے، گِلہ اور شکوہ کس بات کا۔ خود کو مضبوط کر اور دوسروں کو مداخلت کا موقع نہ دے۔ اسی سے تیری نجات ہو گی۔ 
    افسوس کی بات یہ ہے کہ آج ہمیں خود معلوم نہیں کہ دینِ اسلام کی حقیقت کیا ہے۔دین ِ اسلام کو سمجھنے اور اس پر متحد ہو کر عمل کرنے کے بجائے مسلمان مختلف گروہوں اور فرقوں میں تقسیم ہو چکے ہیں اور دینِ اسلام کی بنیادوں کو اپنی اَنا ،ذات پرستی اور مسالک کو ہوا دینےکی وجہ سے ہلا کر رکھ دیا ہےاور اپنے پیشوا ﷺکی سیرت کی ہم میں خوشبو تک نہیں۔ اصلاحِ احوال اور سیرت سازی سے ہم کوسوں دور ہیں۔ دوسروں کی عقیدت جو کہ انسانی فطرت کا انتخاب ہے ،اْسے مجروح کرنا ہمارا مشغلہ بن چکا ہے اوردعا یہ مانگتے ہیں کہ فتح اسلام شکستِ کفار۔ اسلام کو مکمل ضابطہ 

ء حیات مانتے ہیں مگر معمولی فروعی اختلافات کی وجہ سے نفرت اور فرقہ واریت کو ہوا دینا اپنے لیے لازم سمجھتے ہیں، اسلئے کہ ہمارے نفس کی تسکین دوسروں کی تباہی میں پوشیدہ ہے۔  
    یاد رکھ اے مسلمان !دنیا کے بہترین وسائل ہونے کے باوجود تیرے نفاق نے تجھے غیروں کا اسیر اور غلام بنا دیا۔ ہمارا نفاق بدنامی سے بڑھ کر ہمارے لئے شرمندگی کا باعث بن چکا ہے۔ ہمیں اْس اسلام کی طرف لوٹنا ہو گا جو ہمارے پیشوا ﷺنے لایا تھا۔ حقیقی اسلام کی تصویر ہمارے پیشواﷺ کی سیرت ِ پاک ہے۔ تشدد اور جلائو گھیرائو کا طریقہ ہمارے لیے نفع بخش ثابت نہ ہو سکا، اب مکے کے مہاجرین اورمدینے کے انصار کی طرح بھائی بھائی بننا ہو گا۔ مسلمان کا اتحاد اور اتفاق وہ عظیم قلعہ ہے جو کہ ناقابلِ تسخیر ہے۔ اتفاق جسم و روح میں ہو تو زندگی ، قوموں اور قبیلوں میں ہو تو امن و سلامتی کا باعث بن جاتا ہے، یہ حق پرست لوگوں کا شیوہ ، مردان ِ خدا کی سیرت اور آپﷺ کی اولین چاہت ہے۔ 
     غیر مسلمین کا مسلمانو ں کے ساتھ جو رویہ ہے ، اس سے نجات اور چھٹکارے کیلئے ہمیں اپنی روش کو بدلنا ہو گا یعنی موجودہ عمل سے باز آکر آپس کے اختلافات اور خونریزی کو بند کرنا ہو گا۔ انماالمومنون اخوۃ والی فضا ء قائم کر کے دنیائے انسانیت میں خود کو امن کا علمبردار ثابت کرنا ہو گا، لیکن ان تمام مسائل اور امت کے ہر دکھ ،درد اور مرض کا علاج اتحاد اور اتفاق میں پوشیدہ ہے۔
     مگر یاد رہے ،اتحاد کی اہمیت اور فرضیت سمجھنے کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اتحاد بین المسلمین کب اور کیسے ممکن ہوگا۔ ہر مذہبی ،سیاسی اور سماجی راہنما اتحادِ امت کی بات کرتا ہے۔ ہر تنظیم ،جماعت اور مسلک میں اتحادِ امت کی ضرورت پر بڑے بڑے لیکچرز دئیے جاتے ہیں اوراسکی اہمیت پر روشنی ڈالی جاتی ہے لیکن بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اتحاد کہیںبھی نظر کیوںنہیں آتا۔ 

    یاد رکھیے !اتحاد کی بنیاد اور ابتدا ہمارے اپنے وجود سے ہوتی ہے۔ جس انسان کے وجود میں اتفاق قائم ہو ، وہ دنیا کو متحد کر سکتا ہے۔ وجود کا اتحاد انسان کی نیت ، گفتار اورکردار کی ہم آہنگی ہے۔ یعنی نیت کا گفتار کے ساتھ اورگفتار کا کردار کے ساتھ نفاق نہ ہواور نیت ،گفتار اور کردار کو ایک دوسرے پر گواہ بنانے کیلئے ہمیں حرص کو چھوڑ کرقناعت کو اپنی زندگی کا شیوہ بنانا ہو گا۔ مسلمان تب تک اپنے اوپر لگے ہوئے دہشت گردی اور شدت پسندی کے داغ اور دھبے دْور نہیں کر سکتا جب تک اس کا قو ل اور فعل ایک نہ ہو جائے۔ ہمارے ہر عیب کی وجہ ہمارا نفاق اورنفاق کی وجہ ہمارے گفتار وکردار میںتضاد ہے۔ 
    ہر گز وہ لوگ ،تنظیمیں ،جماعتیں یامسالک امت کو متحد نہیں کر سکتے، جن کے اپنے وجود کی دنیامیںاتحاد قائم نہ ہو۔ اتحادِ امت کا وسیلہ وہ لوگ ہوں گے جن کا کردار اْ ن کے گفتار کا شاہد ہو۔ جن کے عمل سے روشنی نکلے ،جو ایک دوسرے پر ایسے مہربان ہو ں جیسے صحابہ کرام ؓتھے اور ان کا رحم ، محبت، دوستی، ہمدردی،غمخواری، عدل و انصاف،سچائی، دیانتداری ، عفوودرگذراور پاکی سیرتِ رسولﷺ کا عملی نقشہ پیش کرے۔ دوست اور دشمن ان کی پاکی ،سچائی، دیانتداری اور عدالت کی گواہی دیں۔سیرتِ رسولﷺ کے آئینہ دار نہ صرف یہ کہ اتحادِ امت قائم کر سکتے ہیں بلکہ امت کیلئے ہر مشکل سے نجات کا وہ سفینہ ثابت ہوں گے جو دْکھی ، مایوس اور بے سہاروں کوگرداب سے نکال کر بحفاظت کنارے تک رسائی دیں گے اور اس حقیقت کو ثابت کرنے اور وحدت و اتفاق کی فضاکو قائم کرنے کیلئے ایسے رہنما کی ضرورت ہے جو ذات پرست، قوم پرست،فرقہ پرست اور مسلک پرست نہ ہو ،اسی طرح کے اشخاص خاتمہ ئِ فرقہ واریت اور اتحاد امت کیلئے مسیحا ثابت ہو سکتے ہیں۔الغرض ہر زمانے میں دیانت دار ،نیک اور مخلص مومنین موجود ہو تے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگ انہیں پہچانے اور ان کا ساتھ دیںتو انشاء اللہ رب العالمین