اتوار 19 مئی 2024 - اتوار, 11 ذوالقعدۃ‬ 1445 IMG
Karwan e Najia Logo
کالم

انقلاب

Jan-24 123 Views

تحریر: حضرت محمد ظفر منصورؔ مدظلہ العالیٰ
بانی و سر پرست ِ اعلیٰ عالمی روحانی جماعت کاروانِ ناجیہ

جب ا نقلاب کا لفظ سننے میں آتا ہے تو فوراً بدن کے تمام اعضا پر خوف طاری ہو جاتا ہے ۔کیونکہ دنیا میں جتنے بھی انقلابات آئے   بہت سی تباہی و بربادی اور نا خوشگوار تاریخ چھوڑگئے ہیں۔ مثلاً افغانستان کا انقلاب جو کہ لاکھوں لوگوں کی زندگی کیلئے لقمہ اجل بن گیا۔ جوان عورتیں بیوہ ،معصوم بچے یتیم ،ہزاروں جسم معزوراور ہزاروں مائیں آج بھی اپنے پیاروں کے انتظار میں رورہی ہیں ۔ تبھی تو انقلاب کو وحشت  ،غربت ،جلا وطنی ،تباہی اور بربادی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔لیکن یاد رکھو 
 انقلاب وحشت اور قتلِ انسانیت نہیں بلکہ حقیقی اور معنوی تبدیلی لانے کا نام ہے۔ 

در حقیقت انقلاب تجدیدِ دوران اور ہر صدی کی ضرورت ہے۔جیسا کہ رحمت عالم حضرت محمد ﷺ نے اپنی سیرت و کردار سے جہان میں ایسا حقیقی اور معنوی انقلاب بر پا کر دیا کہ کائنات کے نقشہ کو یکسر بدل دیا۔آ ج بھی وہ تاریخ مورخین کی زیب ِداستان ہے۔ اس حقیقت سے کوئی بھی ذیشعور انسان انکار نہیں کر سکتا کہ تاریخ اپنے آپ کو دہرا تی ہے۔وہ قبل از اسلام والی حالت نے دوبارہ جہانِ انسانیت کو اپنی لپیٹ میں محصور کر دیااور کہیں بھی فلاح و نجات کا رستہ نظر نہیں آتا  ۔
    لہذا آج ایک عظیم حقیقی اور روحانی انقلاب کی ضرورت ہے تاکہ محروم انسان کو اس کامسلمّ اور بنیادی حق مل جائے اور دنیا امن کا گہوارہ اور ثانی جنت بن جائے ۔عالمِ انسانیت ،بالخصوص مسلما ن جو فرقہ ورایت تعصب ،گروہ بندی، حرص و ہوس،بے یقینی، بے چینی اور عدم اعتماد کی آگ میں جل رہے ہیں ،کو نجات مل جائے ۔ہر طرف سچائی، صدق اعتماد، قناعت ،پیار و محبت اور بھائی چارے کی فضا ہو۔   اور خلیفۃ الارض کا کھویا ہوا مقام دوبارہ بحال ہو جائے انسان دوسرے انسان کی ذہنی ،عقیدوی اور جسمانی اسارت سے آزاد ہو جائے۔ اس طرح انقلاب در حقیقت تجدید دوران اور نزولِ رحمت خدا وندی کی دلیل ہے ۔جس کی اشد ضرورت ہر انسا ن اور با لخصوص مسلما ن کو ہے ۔ اب ہم کس سے حقیقی تبدیلیاں لانے کی توقع رکھیں ؟
    جیسا کہ کہاوت ہے کہ ایک شکاری جنگل میں جا رہا تھا اس نے دیکھا کہ ایک ظالم بھیڑئیے نے ایک ہرن کو شکار کر کے اس کے جسم میں بے شمار زخم کر دیئے۔جب شکاری کی نظر ہرن پر پڑی تو فوراً اس ہرن کوبھیڑئیے سے چھڑوا دیا۔اور ہرن نے اس پر بہت خوشی کا اظہار کیا کہ مجھے مسیحا مل گیا۔اب میرے زخموں کو پٹی اور مجھے نئی زندگی مل گئی۔تھوڑی دیر کے بعد جب شکاری نے اپنی چھری نکال کر ہرن کو ذبح کرنے لگا تو اس وقت ہرن کی آنکھیں پرنم ہو گئیں اور بزبانِ حال اس طرح گویا ہوا کہ
     اے درندہ صفت انسان میں نے تو آپ کو مسیحا سمجھ کر شکر ادا کیا۔لیکن مجھے پتہ نہیں تھا کہ آپ بھی اس بھیڑیئے کے بڑے اور سگے بھائی ہو۔صرف شکل و صورت میں فرق ہے ۔میرا خون چوس لو میرا جسم ٹکڑے ٹکڑے کر کے کھا لو لیکن آپ سے التجا ہے کہ خدا را  اپنے تن سے اس مقدس بشری لباس کو اتار دو۔تاکہ میری طرح مظلوم قوم آپ کی انسانی شکل و صورت دیکھ کر آپ کے مکر و فریب کے جا ل میں نہ پھنس جائے۔
    الغرض چہرے بدلتے رہتے ہیں لیکن حالات کی تبدیلی نظر نہیں آتی ہے۔لہذا حقیقی تبدیلی لانے کی توقع موجودہ وقت کے دعوے داروں سے ناممکن ہے ۔کیونکہ جب تک ایک شخص اپنے وجود کی دنیا  میں تبدیلی نہیں لا سکتا ۔اس وقت تک دنیا میں انقلاب لانے کا دعویٰ بے بنیاد اور باطل ہے ۔انقلاب کی ابتداء اپنے ہی وجود کی دنیا سے ہے ۔آج جو قحط،مہنگائی،بے موسم بارشیں، خشک سالی،زمینی اور سماوی آفتیں ہم پر نازل ہو رہی ہیں ۔ہم پر خالقِ حقیقی ناراض ہیں ۔ہم نے سر کشی اور بغاوت کی انتہا کر دی۔انسان سے انسان کی جان مال اور عزت محفوظ نہیں ہے ۔انسان اپنا سکون اور خوشحالی دوسروں کی تباہی میں تلاش کر رہا ہے۔ انسان اپنے معمولی سے ذاتی مفاد کیلئے اجتماعی اور قومی مفا د کو دائو پر لگا دیتا ہے ۔پس سیرت و کردار سازی یعنی تجدید کی اشد ضرورت ہے ۔تاکہ انسان سیرتاً حقیقی معنوں میں اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرلے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ِ عالیشان ہے ۔کہ جو قومیں اپنی (اچھی یا بری )حالت میںتبدیلی پیدا نہ کریں اللہ تعالیٰ ان کی اس حالت کو تبدیل نہیں کرتاہے ( القرآن )
    یہ بات کہ اللہ تعالیٰ نے یہ حالت ہم پر نازل کر دی انتہائی گستاخی کے الفاظ ہیں ۔کیو نکہ اللہ تعالیٰ کے رحم اور غضب کو دعوت دینا ہمارے اوپر منحصر ہے۔اور اللہ تعالیٰ کی شان ہمارے لئے ،ہمارے اعمال اور نیتوں کے مطابق تبدیل ہوتی رہتی ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان عالیشا ن ہے جو زمینی اور سماوی آفتیں تم پر نازل ہوتی ہیں ،تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے ۔اگر ہم نے بغاوت اور سر کشی کا رستہ اختیا رکر لیا،تو اللہ تعالیٰ کی شانِ رحیمیّت قہاریت میں تبدیل ہو جائے گی۔اور اگرہم نے بغاوت اور سر کشی سے توبہ کی تو اللہ تعالیٰ کی شان ِقہارییّت  رحیمّیت اور عفو میں بدل جائے گی ۔بیشک اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا  اور رحم کرنے والاہے ۔

بقولِ شاعر
کرو مہربا نی تم اہلِ زمین پر 
خدا مہربان ہو گا عرشِ بریں پر

جو کام خلوص نیت اور پاکی سے کیا جائے اللہ تعالیٰ کی مدد اور رضا  اس میں شامل ہو جاتی ہے ۔در حقیقت ، انقلاب کا اثر و تاثیر تجدید ہے ۔اور تجدید کیلئے مجدد کی ضرورت ہے ۔مجدد انسان کی سیرت و کردار کے فرسودہ نظام کو یکسر تبدیل کر کے با اثر و با کردار بنا دیتا ہے ۔تب ہی دنیا امن اور سکون کا گہوارہ بن سکتا ہے ۔کیونکہ امن اور  شرباہر سے نہیں بلکہ انسان کے وجود سے خروج کر کے معاشرے پر مسلط ہوتا ہے ۔ الغرض معاشرے کا امن اور سکون انسان کے عمل و کردار پر منحصر ہے ۔
    روحانیون انسان کے سوئے ہوئے اور غافل ضمیر کو جگا دیتے ہیں، اور اپنے ضمیر سے دوسروں کے ضمیر کو روشن بنا کر سینہ بہ سینہ اس نور ِ حقیقت کو  بذریعہ خلقِ عظیم  ،تدبیرو حکمت، پاکی ، سچائی اور عدل و انصاف سینکڑوں سے ہزاروں اور ہزاروں سے لاکھوں قلوب تک منتقل کر دیتے ہیں۔ روحانی انقلاب وہ حقیقی اور معنوی تبدیلی ہے۔ جو بغیر آدم کشی اور خون ریزی کے دنیا سے شر کا خاتمہ کر کے امن ومحبت کو قائم کر دیتاہے ۔
جیسا کہ حضرت خواجہ غریب نوازؒ نے بغیر جبر و تشدد ،قتل و آدم کشی کے ،محض پیار ،محبت ،سچائی ،پاکی اور خلقِ عظیم سے تقریباً۹۰ لاکھ ہندئوں کو مشر ف با اسلام کر دیا۔حضرت سلطان العارفینؒ کے چہرہ انور کو دیکھ کر منکرین بے ساختہ توحید و رسالت کا کلمہ پڑھنے پر مجبور ہو جاتے تھے۔ حضرت علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش ؒکے فیوض و برکات آج بھی ہزاروں نا امیدوں کیلئے امید کا مرکز ہیں ۔
    الغرض روحانیون نے ہر زمانے میں دینِ اسلام کو بذریعہ اعمال و کردار  ایسی خوشبو دار اور حسین معشوقہ کی طرح زمانے والوں کے سامنے پیش کیا ہے کہ اس دینِ مقدس کو اپنانا ہر انسان کی چاہت اور ضرورت بن گئی۔حقیقی تبدیلی لانا جبرو تشدد سے نا ممکن ہے۔اگر ہمیں دنیا میں امن و سکون رائج کرنا ہے تو اپنے اسلاف کے نقشِ قدم اور پیروی کو اختیار کرنا ہوگا۔اور جنہوں نے اپنے اسلاف کی پیروی چھوڑ کر غیروں کے خود ساختہ رسوم و رواج کو اپنا لیا ،ذلت اور شرمندگی ان کا مقدر بن گئی۔
    آئیںہم سب مل کر وحدت و اتفاق اور بھائی چارے کو اپناتے ہوئے اپنی سیرت و کردار سے ایسا مثبت انقلاب برپا کردیں تاکہ ہمارے اسلاف کا درخشاں ما ضی جو کہ اب صرف ایک کہانی تصوّر کی جا تی ہے۔ حقیقت میں ثابت ہو جائے۔اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کا نائب اور خلیفۃ الارض ہو نے کا حقیقی ثبوت پیش کر دیں ۔حرص و ہوس کو قناعت، شر کو امن، دشمنی کو دوستی اور ظلم کو عدل  میںبدل دیں ۔دنیا کو ضرورت اور آخرت کومقصدسمجھ کر ایسے زندگی بسر کریں،کہ جب ہم دنیا سے جائیں تو ہمارے جانے سے انسانیت پر اندھیرا  چھا جائے۔