پیر 06 مئی 2024 - پیر, 27 شوال‬ 1445 IMG
Karwan e Najia Logo
News

واقعہ کربلا کوئی تخت ، اقتدار اور ذاتیات کی جنگ نہ تھی بلکہ یہ معرکہ دو نظریات اور دو مختلف کرداروں کے مابین تھا ۔ ایک کردار یزیدی تھا اور دوسرا کردار حسینیت ؓ

Jan-24 551 Views

     حضرت محمد ظفر منصور مدظلہ العالی بانی و سرپرستِ اعلیٰ عالمی روحانی جماعت کاروان ناجیہ نے فرمایا! کہ واقعہ کربلا کوئی تخت ، اقتدار اور ذاتیات کی جنگ نہ تھی بلکہ یہ معرکہ دو نظریات اور دو مختلف کرداروں کے مابین تھا ۔ ایک کردار یزیدی تھا اور دوسرا کردار حسینیت ؓ ۔ جس طرح کے علامہ اقبال ؓ نے اِس حقیقت کو کچھ یوں بیان کیا ہے۔!

موسیؑ و فرعون و شبیرؓ و یزید
ایں دو قوت از حیات اپدید
زندہ حق از قوت شبیری است
باطل آخر داغِ حسرت میری است 
موسیؑ اور فرعون ، شبیر ؓ اور یزید


    کہ یہ دو قوتیں ہیں ۔ جو زندگی کے ساتھ ہی ظاہر ہوئی ہیں( یعنی ابتدائے انسانیت سے ہی حق و باطل کی متضاد کردار موجود ہیں)۔ حق قوتِ شبیری سے زندہ رہتا ہے اور باطل آخر کار حسرت کی موت کا داغ بن جاتا ہے( جیسا کہ یزید کا انجام ہوا)۔
    حضرت امام حسین ؓ عالی مقام اُسی خالص دین کے پیروکار تھے۔ جو انہیں اپنے نانا سرکار دو عالمﷺ سے ملا تھا ۔ امام حسین ؓ کی چاہت تھی کہ اسی خالص دین کا راج تمام عالم پہ ہو جائے ۔ کیونکہ آپؓ نے اپنے ناناﷺ سے یہی سیکھا تھا کہ اخلاص دین اسلام کی اساس ہے۔ اخلاص ہی عمل کی روح اور رحمتِ خداوندی کا ذریعہ ہے۔ اخلاص تمام عبادات اور اعمال حسنہ کی روح ہے۔ اخلاص مومنین کا شیوہ اور صالحین کا فطرت ہے۔
     اخلاص ہی حسینی ؓاور یزیدی کردار میں بنیادی فرق تھا ۔ یزید حاکم وقت تو تھا۔ خود کو مسلمانوں کا حاکم تو کہلواتا تھا ۔مگر اسکا عمل اخلاص سے عاری تھا۔ یزیدی کردار کے عمل میں دورنگی ، ملاوٹ، کھوٹ عیاں تھی ۔ جبر ، ظلم ،زیادتی اور تشدد اسکا شیوہ بن گیا تھا۔ 
    یزیدی کردار کے قول و فعل میں تضاد کھل کر سامنے آ چکا تھا ۔ وہ منافقت ، دو دنگی اور ظلم کا نظام تمام اسلامی سلطنت میں عام کرنا چاہتا تھا اور اسی نظام کو تسلیم کرنے کیلیے نواسہ رسولﷺ کو مجبور کر رہا تھا۔لیکن حضرت امام ِ حسینؓ نے انکار کرتے ہوئے فرمایا کہ ملاوٹ ،دورنگی، کھوٹ یعنی ظاہر اور باطن کے تضاد کو اللہ اور اُس کا رسول ﷺ پسند نہیں فرماتا۔تو حسین ابن علی ؓ کیسے پسند کرے۔میرے نانا ﷺ کا فرمانِ عالی شان ہے کہ!
جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں۔
    فرمایا۔ سنو یزید کے قاصدو! حسین ؓکا مال تو جا سکتا ہے۔ اولاد تو جا سکتی ہے۔جان تو جا سکتی ہے۔ لیکن حسینؓ اپنےناناﷺ کے دین کاسودا نہیں کر سکتا۔یزید کی بیعت کا انکار کرتے ہوئے دو لفظوں میں پورا مقصد سمجھا کر ہمارے لیے مشعلِ راہ بنا دیا۔  مِثْلِي لَا يُبَايِعُ مِثْلَهحسینؓ جیسا شخص ، یزید جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا۔وہ اِس لیے  وَلَکُمْ فِیْہَا  اُسْوَہ     کہ کل قیامت تک منافقت کے خلاف،جبر کے خلاف، ظلم کے خلاف کھڑا ہونے والوں کیلئے کوئی مثال تو ہو۔
    آخر میں آپ مدظلہ العالی فرماتے ہیں۔ لوگ مال بچانے کیلئے ، اولاد بچانے کیلئے، عہدہ بچانے کیلئے، دنیا وی شہرت بچانے کیلئے،ظالم کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر سر جھکا دیتے ہیں۔ لیکن امام عالی مقام ؓنے مال بھی دے دیا، اولاد بھی قربان کر دی، سر بھی دے دیامگر باطل کے ہاتھ میں ہاتھ نہ دے کر قیامت تک آنے والوں کیلئے تاریخ رقم کر دی کہ یاد رکھو! سب کچھ جا سکتا ہے لیکن ظلم کے ساتھ مفامہت نہیں کی جاسکتی ۔