News کاروان ناجیہ

Views: 10061

سیدنا حضر ت عمر فاروقِ اعظمؓ کو یقین ہوگیا کہ میری خواہش پوری ہوگی۔۔۔!

سیدنا حضر ت عمر فاروقِ اعظمؓ کو یقین ہوگیا کہ میری خواہش پوری ہوگی۔۔۔!

     ایک مرتبہ حضورِ نبی اکرم ﷺ نے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں التجا کی کہ اےپروردگار اپنے دین کی مضبوطی اور تقویت کیلئے ہشام کےبیٹے یا خطاب کےبیٹے کو مشرف با اسلام فرما۔آپﷺ کی دعا کو اللہ رب العزت نے قبولیت کا شرف بخشااور خطاب کے بیٹے عمرابنِ خطاب کواس عظیم مقصد کیلئے انتخاب فرمایا ۔ حضرت عمرفاروقؓ کو  مرادِ مصطفی ﷺ اس لیے کہا جاتا ہے کہ آپؓ کو حضور نبی اکرمﷺ نے بارگاہ خداوندی سے مانگا تھا۔ آپ ؓکو  عشرہ مبشرہ جیسے خوش نصیب صحابہ کرامؓ  میں بھی شامل ہونے کا شرف حاصل ہےجن کو دنیا میں ہی حضور نبی اکرمﷺ نے جنتی ہونے کی بشارت دی تھی ۔حضرت عمرؓکے اسلام لانے پر حضرت جبرائیلؑ حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور آپﷺ کوحضرت عمرؓکےایمان لانےپر مبارک باددی اور فرمایاکہ آسمان والے ایک دوسرے کوحضرت عمرؓ کے اسلام لانے کی خوشخبری سنارہے ہیں۔ 
  
     حضرت محمدِ مصطفیﷺکا حضرت عمر ؓکے بارے میں فرمانِ عالی شان ہے کہ
 جس راستے سے عمر گزرتا ہے شیطان وہ راستہ چھوڑ دیتا ہے۔ (بخاری ومسلم)


     حضرت عمر فاروقؓ نے خلیفہ بننے کے بعد مسلمانوں کو خطبہ دیا اور فرمایا۔اے لوگو! میری سختی اس وقت تک تھی جب تم لوگ حضورنبی اکرمﷺ اور حضرت سیدنا ابوبکر صدیقؓ  کر نرمی اور مہربانی سے فیض یاب تھے۔میری سختی ،نرمی کے ساتھ مل کر اعتدال کی کیفیت پیدا کر دیتی تھی ۔اب میں تم پر سختی نہیں کروں گا۔ اب میری سختی صرف ظالموں اور بدکاروں پر ہوگی۔


    خلیفہ بننے کےبعد آپؓ  کے عدل و انصاف کا یہ عالم تھاکہ اگر میرے عہدِ خلافت میں دریائے فرات کے کنارے پر ایک پیاسہ کتا بھی مرگیا تو روزِ محشر اللہ رب العزت کے ہاں میں اس کا جواب دہ ہوں گا۔حضرت عمرِ فاروق ؓ  راتوں کو مدینے کی گلیوں میں پہرا دیا کرتے تھے تاکہ معلوم ہوسکے کہ رعایا کو کوئی تکلیف تو نہیں ۔ ایسا حاکم کا ملنا آج کے اس دور میں مشکل ہے جو اپنی رعایا کیلئے اپنا سکون بھی قربان کر دے۔

      ایک مرتبہ آپ ؓ   منبر ِ رسول ﷺ پر خطبہ دے رہےتھے کہ ایک غریب شخص کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا کہ اے عمرؓ  ! ہم آپ کا خطبہ اُس وقت تک نہیں سنیں گے جب تک یہ معلوم نہ کر لیں کہ جو کپڑا بیت المال سےملا ہے اس سےایک آدمی کا مکمل لباس نہیں بنتالیکن آپؓ   نے کیسے لباس بنا لیا۔۔؟ حضرت عمرؓ  مجمع میں موجود اپنےبیٹے سے مخاطب ہوئے اور فرمایاکہ بیٹا قسم اس ذات کی جس کے قبض قدرت میں میری جان ہے میں اس وقت تک اس منبر پردوبارہ نہیں بیٹھوں گاجب تک تم اس لباس کی حقیقت سے لوگوں کو آگاہ نہیں کر دیتے۔حضرت عبداللہ بن عمرؓ  نے لباس کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ جو کپڑا میرے والد ِ متحرم کو ملاتھا اس سے ایک شخص کا مکمل لباس نہیںبن سکتااور میرے والد کا پہلا لباس جوکہ بہت خستہ حال تھا اس لیے میں نے اپنا کپڑا بھی اپنے والد کو دے دیا ۔جس سے ان کا پورا لباس بن گیا۔


     27 ذوالحجہ 23ھ کو حضرت عمرِ فاروقؓ  صبح کی نماز پڑھانے کے لیےمسجد تشریف لے گئےاور حسب معمول فرض نماز پڑھانے کی غرض سے امامت کیلئے کھڑے ہوئے ۔ابھی تکبیر تحریمہ ہی کہی تھی کہ فیروزنامی مجوسی جو کہ پہلے ہی تاک لگائےزہر آلود خنجر چھپائے کھڑاتھااور موقع ملتے ہی اس ظالم شخص نے امیرالمومنین پر زہر آلود خنجر کے تین وار کیےجس سےآپؓ شدید زخمی ہوگے لیکن  مرادِمصطفی ﷺ کے عزم و ہمت کے کیا تذکرے کہ زخموں سے چورامیر المومنین سیدنا حضرت عمرفاروقؓ نے گرتے ہی مصلیٰ امامت حضرت عبدالرحمن بن عوف کے سپرد کیا۔خون میں لت پت امیرالمومنین نے اشاروں سے نماز مکمل کی ۔ نماز کے بعد آپ نے پہلا سوال یہ کیا کہ میراقاتل کون ہے؟ معلوم ہوا کہ وہ غیر مسلم ہے تو آپ نے بلند آواز سے کہا الحمداللہ۔گویا امیرالمومنین کی شہادت کی خواہش پوری ہونے کا وقت آگیا ۔سیدنا حضر ت عمر فاروقِ اعظم کو یقین ہوگیا کہ میری خواہش پوری ہوگی۔آپ ؓیکم محرم الحرام کو 63 برس کی عمر میںمدینہ منورہ میں شہادت پاگئے ۔آپ کی تدفین حضرت عائشہ کی اجازت سے حضور ﷺ کے پہلو میں ہوئی ۔آپؓ کی نماز جنازہ حضرت صہیب ؓنے پڑھائی۔

یہ خبر پڑھنے کیلئے اس پر کلک کریں۔
تفرقہ بازی کی نفی کرکے اپنے دین کو اللہ کیلئے خالص کر لو۔ حضرت محمد ظفر منصوؔر مدظلہ العالی

Karwan-e-Najia Advertisement
- Live Chat

8 PM to 9 PM (PST)

Refresh the page if the form is visible after submission.